Allama Iqbal Poetry, Ghazals & Shayari
وہی بت فروشی، وہی بت گری ہے
سینما ہے یا صنعتِ آزری ہے
وہ صنعت نہ تھی، شیوہَ کافری تھا
یہ صنعت نہیں ، شیوہَ ساحری ہے
وہ مذہب تھا اقوامِ عہد کہن کا
یہ تہذیبِ حاضر کی سوداگری ہے
وہ دنیا کی مٹی، یہ دوزخ کی مٹی
وہ بت خانہ خاکی، یہ خاکستری ہے
Wohi Bot Faroshi, Wohi Bot Gari Hai
Cinema Hai Ya San’at-e-Azari Hai
Cinema—or new fetish‐fashioning,
Idol‐making and mongering still?
Woh San’at Na Thi, Shewa-e-Kafiri Tha
Ye San’at Nahin, Shewa-e-Sahiri Hai
Art, men called that olden voodoo—
Art, they call this mumbo‐jumbo;
Woh Mazhab Tha Aqwam-e-Ehd-e-Kuhan Ka
Ye Tehzeeb-e-Hazir Ki Soudagari Hai
That—antiquityʹs poor religion:
This—modernityʹs pigeon‐plucking;
Woh Dunya Ki Mitti, Ye Dozkh Ki Mitti
Woh Bot Khana Khaki, Ye Khakastari Hai
That—earthʹs soil: this—soil of Hades;
Dust, their temple; ashes, ours.
source: https://www.iqbalrahber.com
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار
ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار
ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے
پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ
خوار ہوگا
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر
آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار
ہوگا
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر
استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ
دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار
ہوگا
کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی
انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ
ہے خار ہوگا
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں
نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار
ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی
کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار
ہوگا
سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں
کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار
ہوگا
چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی
کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں
شمار ہوگا
جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں
دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار
ہوگا
کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد
پا بہ گل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار
ہوگا
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے
ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں
سے پیار ہوگا
یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار
ہوگا
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے
درماندہ کارواں کو
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار
ہوگا
نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری
زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار
ہوگا
نہ پوچھ اقبالؔ کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت
ہے اس کی
کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا
Koi Shae Chup Nahi Sakti Ke Ye Aalam Hai Noorani
جہاں میں دانش و بینش کی ہے کس درجہ ارزانی
کوئی شے چھپ نہیں سکتی کہ یہ عالم ہے نورانی
कोई शे चुप नहीं सकती के ये आला है नूरानी
To know and see is so easy in the world
Nothing may stay hidden from this universe is luminous
اگر آپ کوشاعری پسند ہے تو آپ سے گزارش ہے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ شکریہ
If you like Poetry then please share it on social media.
Thanks in anticipation
No comments:
Post a Comment