کھو نہ جا اس سحر و شام میں – اقبال کی لازوال شاعری کا ایک شاہکار! - Urdu and Hindi Shayari Blog

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Tuesday, March 4, 2025

کھو نہ جا اس سحر و شام میں – اقبال کی لازوال شاعری کا ایک شاہکار!

 

"کھو نہ جا اس سحر و شام میں – اقبال کی لازوال شاعری کا ایک شاہکار!"

کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحبِ ہوش!

اک جہاں اور بھی ہے جس میں فزوں تر ہے ندوش

کس کو معلوم ہے نغمۂ فُرَا کا مقام

مسجد و مکتب و میخانہ میں مدت سے خموش

میں نے پایا ہے اسے اشکِ سحر گاہی میں

جس درِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش

نئی تہذیب کے تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں

چہرہ روشن ہو تو کیا حاجتِ گلگونہ فروش!

(بالِ جبریل)

حاجتِ گلگونہ فروش کا مطلب ہے سرخی بیچنے والے (رخساروں کے لیے مصنوعی رنگ و زیبائش فراہم کرنے والے) کی ضرورت۔

یہ مصرع "چہرہ روشن ہو تو کیا حاجتِ گلگونہ فروش!" (اگر چہرہ قدرتی طور پر روشن اور خوبصورت ہو تو سرخی بیچنے والے کی کیا ضرورت؟) علامہ اقبال کے فلسفے کو ظاہر کرتا ہے کہ اگر انسان کا باطن روشن اور خوبصورت ہو تو مصنوعی سجاوٹ اور بناوٹ کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔


खो न जा इस सहर-ओ-शाम में ऐ साहिब-ए-होश!
एक जहान और भी है जिसमें फुज़ूँ तर है नदोष

किस को मालूम है नग़्मा-ए-फ़िरा का मकाम
मस्जिद-ओ-मकतब-ओ-मैक़ाना में मुद्दत से खामोश

मैं ने पाया है उसे अश्क-ए-सहरगाही में
जिस दर-ए-नाब से खाली है सदफ़ की आग़ोश

नई तहज़ीब के तकल्लुफ़ के सिवा कुछ भी नहीं
चेहरा रौशन हो तो क्या हाजत-ए-गुलगूँ-फरोश!

(बाल-ए-जब्रील)


Do not lose yourself in the morning and evening, O wise one!
There is another world where the melody is even more profound

Who knows the station of the song of separation?
It has been silent for ages in mosques, schools, and taverns

I have found it in the tears of the dawn
From the pearl that is empty of the oyster’s embrace

This new civilization is nothing but mere pretension
If the face is radiant, what need is there for rouge sellers!

(Baal-e-Jibreel)

اس غزل میں علامہ اقبال ہمیں حقیقت کی گہرائیوں میں جھانکنے کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف اس دنیا کی چکاچوند میں نہ کھو جاؤ، کیونکہ ایک اور جہان بھی ہے جو اس سے زیادہ حقیقی اور بامعنی ہے۔

اقبال نغمۂ فُرا (قدرتی وجدانی نغمہ) کے خاموش ہونے پر افسوس کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آج کی دنیا میں علم و عبادت کی جگہیں اپنی روحانی قوت کھو چکی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل حقیقت آنسوؤں کی سحر گاہی میں چھپی ہوتی ہے، جہاں سچائی اور روحانی فیض حاصل ہوتا ہے۔

نئی تہذیب کی بناوٹ کو وہ صرف ایک دکھاوا قرار دیتے ہیں۔ اگر انسان کے اندرونی خیالات اور چہرہ خود روشن ہو تو پھر اسے مصنوعی سجاوٹ یا بناوٹ کی ضرورت نہیں رہتی۔

इस ग़ज़ल में अल्लामा इक़बाल हमें गहरी सच्चाई की तरफ़ ध्यान देने को कहते हैं। वे समझाते हैं कि सिर्फ़ इस दुनिया की रोशनी और मोह में न खो जाओ, क्योंकि इससे भी बड़ा और सच्चा एक और जहान मौजूद है।

वे अफ़सोस जताते हैं कि वह रूहानी संगीत (नग़्मा-ए-फ़ुरा) अब खामोश हो चुका है, जो कभी मस्जिद, मदरसे और शराबख़ानों में भी गूंजता था। वे कहते हैं कि असली सच्चाई और आध्यात्मिकता सुबह के आँसुओं में छुपी होती है, न कि दिखावे की दुनिया में।

नई तहज़ीब और आधुनिक समाज को वे सिर्फ़ एक बनावट बताते हैं। अगर किसी व्यक्ति का मन और आत्मा खुद प्रकाशमान है, तो उसे बाहरी दिखावे या बनावटी सुंदरता की कोई ज़रूरत नहीं होती।


Allama Iqbal poetry, Iqbal ghazal, Urdu poetry blog, Bal-e-Jibril poetry, heart-touching Urdu poetry, deep philosophical poetry, best poetry of Iqbal, Urdu ghazal on spirituality, sufi poetry in Urdu, classic Urdu poetry, اقبال کی شاعری, بال جبریل غزل, اردو ادب, شاعری کے خزانے


No comments:

Post a Comment