Poetry on Love - Urdu and Hindi Shayari Blog

Header Ads Widget

Responsive Advertisement

Tuesday, August 27, 2024

Poetry on Love

 

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

خواجہ میر درد

ناصحا عاشقی میں رکھ معذور

کیا کروں عالم جوانی ہے

گویا فقیر محمد

جب ملا کوئی حسیں جان پر آفت آئی

سو جگہ عہد جوانی میں طبیعت آئی

حفیظ جونپوری

توبہ توبہ یہ بلا خیز جوانی توبہ

دیکھ کر اس بت کافر کو خدا یاد آیا

عرش ملسیانی

کس طرح جوانی میں چلوں راہ پہ ناصح

یہ عمر ہی ایسی ہے سجھائی نہیں دیتا

آغا شاعر قزلباش

جوانی سے زیادہ وقت پیری جوش ہوتا ہے

بھڑکتا ہے چراغ صبح جب خاموش ہوتا ہے

شاد لکھنوی

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

علامہ اقبال

رات بھی نیند بھی کہانی بھی

ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی

فراق گورکھپوری

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا

بات پہنچی تری جوانی تک

فانی بدایونی

کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں

جا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا

عبد الحمید عدم

اب جو اک حسرت جوانی ہے

عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے

میر تقی میر

اک ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی

اف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی

داغؔ دہلوی

لوگ کہتے ہیں کہ بد نامی سے بچنا چاہیئے

کہہ دو بے اس کے جوانی کا مزا ملتا نہیں

اکبر الہ آبادی

گداز عشق نہیں کم جو میں جواں نہ رہا

وہی ہے آگ مگر آگ میں دھواں نہ رہا

جگر مراد آبادی

وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا

جوانی ادائیں سکھاتی ہیں کیا کیا

بیخود دہلوی

بچ جائے جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے

ہوتا ہے فرشتہ کوئی انساں نہیں ہوتا

ریاضؔ خیرآبادی

یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو

میری اور اپنی جوانی کو نہ برباد کرو

اختر شیرانی

جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ

مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے

فانی بدایونی

ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار

اک محبت کے لیے ایک جوانی کم ہے

عباس تابش

ہے جوانی خود جوانی کا سنگار

سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے

امیر مینائی

آئنہ دیکھ کے فرماتے ہیں

کس غضب کی ہے جوانی میری

امداد امام اثرؔ

تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے

جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا

تلوک چند محروم

بلا ہے قہر ہے آفت ہے فتنہ ہے قیامت ہے

حسینوں کی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے

عرش ملسیانی

کسی کا عہد جوانی میں پارسا ہونا

قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی

جوشؔ ملیح آبادی

قیامت ہے تری اٹھتی جوانی

غضب ڈھانے لگیں نیچی نگاہیں

بیخود دہلوی

مزا ہے عہد جوانی میں سر پٹکنے کا

لہو میں پھر یہ روانی رہے رہے نہ رہے

چکبست برج نرائن

وہ عہد جوانی وہ خرابات کا عالم

نغمات میں ڈوبی ہوئی برسات کا عالم

عبد الحمید عدم

اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا

موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی

تلوک چند محروم

جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے

اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو

عندلیب شادانی

 

No comments:

Post a Comment