سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں
زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں
خواجہ میر درد
ناصحا عاشقی میں رکھ معذور
کیا کروں عالم جوانی ہے
گویا فقیر محمد
جب ملا کوئی حسیں جان پر آفت آئی
سو جگہ عہد جوانی میں طبیعت آئی
حفیظ جونپوری
توبہ توبہ یہ بلا خیز جوانی توبہ
دیکھ کر اس بت کافر کو خدا یاد آیا
عرش ملسیانی
کس طرح جوانی میں چلوں راہ پہ ناصح
یہ عمر ہی ایسی ہے سجھائی نہیں دیتا
آغا شاعر قزلباش
جوانی سے زیادہ وقت پیری جوش ہوتا ہے
بھڑکتا ہے چراغ صبح جب خاموش ہوتا ہے
شاد لکھنوی
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
علامہ اقبال
رات بھی نیند بھی کہانی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی
فراق گورکھپوری
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
فانی بدایونی
کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
عبد الحمید عدم
اب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے
میر تقی میر
اک ادا مستانہ سر سے پاؤں تک چھائی ہوئی
اف تری کافر جوانی جوش پر آئی ہوئی
داغؔ دہلوی
لوگ کہتے ہیں کہ بد نامی سے بچنا چاہیئے
کہہ دو بے اس کے جوانی کا مزا ملتا نہیں
اکبر الہ آبادی
گداز عشق نہیں کم جو میں جواں نہ رہا
وہی ہے آگ مگر آگ میں دھواں نہ رہا
جگر مراد آبادی
وہ کچھ مسکرانا وہ کچھ جھینپ جانا
جوانی ادائیں سکھاتی ہیں کیا کیا
بیخود دہلوی
بچ جائے جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے
ہوتا ہے فرشتہ کوئی انساں نہیں ہوتا
ریاضؔ خیرآبادی
یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو
میری اور اپنی جوانی کو نہ برباد کرو
اختر شیرانی
جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ
مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
فانی بدایونی
ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار
اک محبت کے لیے ایک جوانی کم ہے
عباس تابش
ہے جوانی خود جوانی کا سنگار
سادگی گہنہ ہے اس سن کے لیے
امیر مینائی
آئنہ دیکھ کے فرماتے ہیں
کس غضب کی ہے جوانی میری
امداد امام اثرؔ
تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے
جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا
تلوک چند محروم
بلا ہے قہر ہے آفت ہے فتنہ ہے قیامت ہے
حسینوں کی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
عرش ملسیانی
کسی کا عہد جوانی میں پارسا ہونا
قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی
جوشؔ ملیح آبادی
قیامت ہے تری اٹھتی جوانی
غضب ڈھانے لگیں نیچی نگاہیں
بیخود دہلوی
مزا ہے عہد جوانی میں سر پٹکنے کا
لہو میں پھر یہ روانی رہے رہے نہ رہے
چکبست برج نرائن
وہ عہد جوانی وہ خرابات کا عالم
نغمات میں ڈوبی ہوئی برسات کا عالم
عبد الحمید عدم
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موج نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی
تلوک چند محروم
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
عندلیب شادانی
No comments:
Post a Comment