یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
ترے سلوک تری آگہی کی عمر دراز
مرے عزیز مرا زخم بھرنے والا تھا
بلندیوں کا نشہ ٹوٹ کر بکھرنے لگا
مرا جہاز زمیں پر اترنے والا تھا
مرا نصیب مرے ہاتھ کٹ گئے ورنہ
میں تیری مانگ میں سندور بھرنے والا تھا
مرے چراغ، مری شب ، مری منڈیریں ہیں
میں کب شریر ہواؤں سے ڈرنے والا تھا
گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے
جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو
اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے
موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار
میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے
نشہ ایسا تھا کہ میخانے کو دُنیا سمجھا
ہوش آیا، تو خیال آیا کہ گھر جانا ہے
مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر
میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے
No comments:
Post a Comment