آج کی اس تیز رفتار
دنیا میں، جہاں ہر کوئی ترقی کی دوڑ میں شامل ہے، ہم اکثر ان حقیقتوں سے آنکھیں
چرا لیتے ہیں جو ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں۔ شاعر نے ان ہی حقیقتوں کو اپنے
خوبصورت اشعار میں پرو کر ایک گہرا پیغام دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں ان اشعار میں
چھپی گہرائی کو اور آج کے معاشرتی تناظر میں ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔
شہروں کی چکاچوند اور انسانیت کی بربادی
شاعر کہتا ہے:
"آبادیوں میں ہوتے ہیں برباد کتنے لوگ
ہم دیکھنے گئے تھے تو برباد ہو گئے"
یہ اشعار شہروں کی بے
رحمانہ حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف شہر ترقی اور خوشحالی کی علامت سمجھے
جاتے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی چکاچوند میں کتنے ہی لوگ اپنی پہچان، اپنے خواب
اور اپنی زندگی گنوا دیتے ہیں۔ شاعر نے خود کو بھی اس بربادی کا حصہ بتایا ہے، جو
اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح شہری زندگی کی کشش انسان کو اپنی لپیٹ میں لے
کر اسے تنہا اور برباد کر دیتی ہے۔
محنت کا پھل اور منافقت کا دور
"میں
پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے"
یہ مصرعے آج کے دور کی
سب سے بڑی سچائی کو بیان کرتے ہیں۔ جہاں کچھ لوگ اپنی منزل حاصل کرنے کے لیے
پہاڑوں جیسی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، وہیں کچھ موقع پرست لوگ آسان راستے اپنا کر
یا دوسروں کی محنت کا پھل چرا کر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ فرہاد کی مثال اس بات کی
بہترین عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح عظیم محنت کو نظر انداز کر کے سستے ہتھکنڈوں سے
کامیابی حاصل کر لی جاتی ہے۔
شہروں میں بھیڑیے اور جنگل کے اصول
"بیٹھے
ہوئے ہیں قیمتی صوفوں پر بھیڑیے
جنگل کے لوگ شہر میں آباد ہو گئے"
یہ اشعار معاشرے میں
بڑھتی ہوئی منافقت اور دھوکہ دہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آج کے دور میں، بظاہر
مہذب اور پرکشش نظر آنے والے لوگ اندر سے بھیڑیوں کی طرح ہوتے ہیں جو دوسروں کا
استحصال کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ جنگل کے اصول اب شہروں میں رائج ہو چکے ہیں، جہاں
طاقتور کمزور کو نگل رہا ہے۔
لفظوں کا جادو اور علم کی توہین
"لفظوں کے
ہیر پھیر کا دھندہ بھی خوب ہے
جاہل ہمارے شہر میں استاد ہو گئے"
یہ مصرعے آج کی اس
حقیقت کو بیان کرتے ہیں جہاں علم اور قابلیت کی بجائے الفاظ کی چمک اور چرب زبانی
کو اہمیت دی جاتی ہے۔ نالائق اور جاہل لوگ صرف اپنی باتوں کے زور پر معاشرے میں
استاد کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں، جبکہ حقیقی علم رکھنے والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ
علم کی توہین ہے اور معاشرے کے زوال کی نشانی ہے۔
آزادی اور نئے سبق
"رشتے کی
دھوپ چھاؤں سے آزاد ہو گئے
اب تو ہمیں بھی سارے سبق یاد ہو گئے"
آخر میں شاعر ایک تلخ
حقیقت کو تسلیم کرتا ہے۔ رشتوں کی گرمی اور ٹھنڈک، یعنی ان کے اتار چڑھاؤ سے آزاد
ہو کر انسان تنہا ہو جاتا ہے۔ یہ تنہائی اسے دنیا کے تمام سبق سکھا دیتی ہے۔ جب
انسان رشتوں کے جھمیلوں سے نکلتا ہے تو اسے دنیا کی اصلیت اور لوگوں کے رویوں کی
سمجھ آتی ہے۔ یہ ایک طرح کی آزادی بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک گہرا درد بھی
ہے جو انسان کو حقیقی زندگی کے سبق سکھاتا ہے۔
نتیجہ
شاعر کے یہ اشعار آج
کے معاشرے کا ایک دردناک مگر سچا عکس ہیں۔ یہ ہمیں اپنی اقدار پر غور کرنے، رشتوں
کی اہمیت کو سمجھنے اور حقیقت پسندی سے کام لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ شہروں کی چمک
دمک میں کھوئے ہوئے انسان کو یہ اشعار ایک بار پھر اپنی روح سے جوڑنے کی دعوت دیتے
ہیں۔
आबादियों में होते हैं बर्बाद कितने लोग
हम देखने गए थे तो बर्बाद हो गए
मैं पर्वतों से लड़ता रहा और चंद लोग
मैं पर्वतों से लड़ता रहा और चंद लोग
गीली जमीन खोदकर फरहाद हो गए
बैठे हुए हैं कीमती सोफों पर भेड़िए।
बैठे हुए हैं कीमती सोफों पे भेड़िए।
जंगल के लोग शहर में आबाद हो गए।
लफ्जों के हेरफेर का धंधा भी खूब है।
लफ्जों के हेरफेर का धंधा भी खूब है।
जाहिल हमारे शहर में उस्ताद हो गए।
जाहिल हमारे शहर में उस्ताद हो गए।
रिश्तों की धूप छांव से आजाद हो गए।
अब तो हमें भी सारे सबक याद हो गए।
No comments:
Post a Comment